EN हिंदी
اک ترا ہجر دائمی ہے مجھے | شیح شیری
ek tera hijr daimi hai mujhe

غزل

اک ترا ہجر دائمی ہے مجھے

تہذیب حافی

;

اک ترا ہجر دائمی ہے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھے

ایک سایہ مرے تعاقب میں
ایک آواز ڈھونڈتی ہے مجھے

میری آنکھوں پہ دو مقدس ہاتھ
یہ اندھیرا بھی روشنی ہے مجھے

میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں
سانس لینا بھی شاعری ہے مجھے

ان پرندوں سے بولنا سیکھا
پیڑ سے خامشی ملی ہے مجھے

میں اسے کب کا بھول بھال چکا
زندگی ہے کہ رو رہی ہے مجھے

میں کہ کاغذ کی ایک کشتی ہوں
پہلی بارش ہی آخری ہے مجھے