EN हिंदी
تعشق لکھنوی شیاری | شیح شیری

تعشق لکھنوی شیر

29 شیر

آمد آمد ہے خزاں کی جانے والی ہے بہار
روتے ہیں گل زار کے در باغباں کھولے ہوئے

تعشق لکھنوی




عدم سے دہر میں آنا کسے گوارا تھا
کشاں کشاں مجھے لائی ہے آرزو تیری

تعشق لکھنوی




بڑھتے بڑھتے آتش رخسار لو دینے لگی
رفتہ رفتہ کان کے موتی شرارے ہو گئے

تعشق لکھنوی




بار خاطر ہی اگر ہے تو عنایت کیجے
آپ کو حسن مبارک ہو مرا دل مجھ کو

تعشق لکھنوی




بہت مضر دل عاشق کو آہ ہوتی ہے
اسی ہوا سے یہ کشتی تباہ ہوتی ہے

تعشق لکھنوی




چلا گھر سے وہ بحر حسن اللہ رے کشش دل کی
عجب قطرہ ہے جو کھینچے لیے جاتا ہے دریا کو

تعشق لکھنوی




چراغ داغ میں دن سے جلائے بیٹھا ہوں
سنا ہے جو شب فرقت سیاہ ہوتی ہے

تعشق لکھنوی




دیتے پھرتے تھے حسینوں کی گلی میں آواز
کبھی آئینہ فروش دل حیران ہم تھے

تعشق لکھنوی




گیا شباب پر اتنا رہا تعلق عشق
دل و جگر میں تپک گاہ گاہ ہوتی ہے

تعشق لکھنوی