ہر طرف حشر میں جھنکار ہے زنجیروں کی
ان کی زلفوں کے گرفتار چلے آتے ہیں
تعشق لکھنوی
آمد آمد ہے خزاں کی جانے والی ہے بہار
روتے ہیں گل زار کے در باغباں کھولے ہوئے
تعشق لکھنوی
گیا شباب پر اتنا رہا تعلق عشق
دل و جگر میں تپک گاہ گاہ ہوتی ہے
تعشق لکھنوی
دیتے پھرتے تھے حسینوں کی گلی میں آواز
کبھی آئینہ فروش دل حیران ہم تھے
تعشق لکھنوی
چراغ داغ میں دن سے جلائے بیٹھا ہوں
سنا ہے جو شب فرقت سیاہ ہوتی ہے
تعشق لکھنوی
چلا گھر سے وہ بحر حسن اللہ رے کشش دل کی
عجب قطرہ ہے جو کھینچے لیے جاتا ہے دریا کو
تعشق لکھنوی
بہت مضر دل عاشق کو آہ ہوتی ہے
اسی ہوا سے یہ کشتی تباہ ہوتی ہے
تعشق لکھنوی
بار خاطر ہی اگر ہے تو عنایت کیجے
آپ کو حسن مبارک ہو مرا دل مجھ کو
تعشق لکھنوی
بڑھتے بڑھتے آتش رخسار لو دینے لگی
رفتہ رفتہ کان کے موتی شرارے ہو گئے
تعشق لکھنوی