یاد ایام کہ ہم رتبۂ رضواں ہم تھے
باغبان چمن محفل جاناں ہم تھے
قابل قتل نہ اے لشکر مژگاں ہم تھے
دل کی اجڑی ہوئی بستی کے نگہباں ہم تھے
دھجیاں جیب کی ہاتھوں میں ہیں آج اے وحشت
جامہ زیبوں سے کبھی دست و گریباں ہم تھے
جان لی گیسوؤں نے الفت رخ میں آخر
کافروں نے ہمیں مارا کہ مسلماں ہم تھے
غیر کے گھر کی طرف کے جو اٹھے تھے پردے
عطر بالوں میں وہ ملتے تھے پریشاں ہم تھے
قفس تنگ میں گھٹ گھٹ کے نہ مرتے کیوں کر
ناز پروردۂ آغوش گلستاں ہم تھے
روح تڑپی ہے پئے لالۂ صحرا کیا کیا
فصل گل جوش پہ تھی قیدئ زنداں ہم تھے
دل کے دینے میں تأمل ہمیں ہوتا کیوں کر
یہ حسینوں کی امانت تھی نگہباں ہم تھے
آج تھی شب کو بہت داغ جگر میں سوزش
کہتی تھی ان کی ملاحت نمک افشاں ہم تھے
شعلۂ حسن سے تھا دود دل اپنا اول
آگ دنیا میں نہ آئی تھی کہ سوزاں ہم تھے
ہر طرف دہر میں تھا زلف کی زنجیر کا گل
مگر اے جوش جنوں سلسلہ جنباں ہم تھے
قافلے رات کو آتے تھے ادھر جان کے آگ
دشت غربت میں جدھر اے دل سوزاں ہم تھے
کہتے ہیں عارض محبوب کہ تھی رات جو گرم
چاند پر اوس پڑی تھی عرق افشاں ہم تھے
طوق منت کے گلے میں تھے وہ دن یاد کرو
تم پر اس عہد میں بھی چاک گریباں ہم تھے
دیتے پھرتے تھے حسینوں کی گلی میں آواز
کبھی آئینہ فروش دل حیراں ہم تھے
ڈوب جاتے ہیں جو رہ رہ کے تعشقؔ تارے
مثل ابر آخر شب وصل میں گریاں ہم تھے
غزل
یاد ایام کہ ہم رتبۂ رضواں ہم تھے
تعشق لکھنوی