EN हिंदी
شمیم حنفی شیاری | شیح شیری

شمیم حنفی شیر

5 شیر

بند کر کے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ
ڈوبتی آنکھوں سے اپنے شہر کا منظر نہ دیکھ

شمیم حنفی




میں نے چاہا تھا کہ لفظوں میں چھپا لوں خود کو
خامشی لفظ کی دیوار گرا دیتی ہے

شمیم حنفی




شام نے برف پہن رکھی تھی روشنیاں بھی ٹھنڈی تھیں
میں اس ٹھنڈک سے گھبرا کر اپنی آگ میں جلنے لگا

شمیم حنفی




تمام عمر نئے لفظ کی تلاش رہی
کتاب درد کا مضموں تھا پائمال ایسا

شمیم حنفی




وہ ایک شور سا زنداں میں رات بھر کیا تھا
مجھے خود اپنے بدن میں کسی کا ڈر کیا تھا

شمیم حنفی