EN हिंदी
سمجھ سکے نہ جسے کوئی بھی سوال ایسا | شیح شیری
samajh sake na jise koi bhi sawal aisa

غزل

سمجھ سکے نہ جسے کوئی بھی سوال ایسا

شمیم حنفی

;

سمجھ سکے نہ جسے کوئی بھی سوال ایسا
بنا ہے سانس کے دھاگوں نے ایک جال ایسا

کبھی دماغ تھا مجھ کو بھی خود پرستی کا
پلٹ کے ذہن میں آیا نہ پھر خیال ایسا

میں آسماں تو نہ تھا جس میں چاند چھپ جاتے
ہوا نہ ہوگا کسی کا کبھی زوال ایسا

تمام عمر نئے لفظ کی تلاش رہی
کتاب درد کا مضموں تھا پائمال ایسا

کنار اب نہ پہنچے گی جان کی کشتی
بہت دنوں سے ہے پانی میں اشتعال ایسا