سورج دھیرے دھیرے پگھلا پھر تاروں میں ڈھلنے لگا
میرے اندر کا سناٹا جاگ کے آنکھیں ملنے لگا
شام نے برف پہن رکھی تھی روشنیاں بھی ٹھنڈی تھیں
میں اس ٹھنڈک سے گھبرا کر اپنی آگ میں جلنے لگا
سارا موسم بدل چکا تھا پھول بھی تھے اور آگ بھی تھی
رات نے جب یہ سوانگ رچایا چاند بھی روپ بدلنے لگا
آوازوں کے انگ انگ میں درد کے نشتر چبھنے لگے
پیاسی آنکھوں کے صحرا میں ریت کا جھکڑ چلنے لگا
نیلے سرخ سفید سنہرے ایک ایک کرکے ڈوب گئے
سمتوں کی ہر پگڈنڈی پر کالا رنگ پگھلنے لگا
غزل
سورج دھیرے دھیرے پگھلا پھر تاروں میں ڈھلنے لگا
شمیم حنفی