وہ ایک شور سا زنداں میں رات بھر کیا تھا
مجھے خود اپنے بدن میں کسی کا ڈر کیا تھا
کوئی تمیز نہ کی خون کی شرارت نے
اک ابر او باد کا طوفاں تھا دشت و در کیا تھا
زمیں پہ کچھ تو ملا چند الجھنیں ہی سہی
کوئی نہ جان سکا آسمان پر کیا تھا
مرے زوال کا ہر رنگ تجھ میں شامل ہے
تو آج تک مری حالت سے بے خبر کیا تھا
اب ایسی فصل میں شاخ و ثمر پہ بار نہ بن
یہ بھول جا کہ پس سایۂ شجر کیا تھا
چٹختی گرتی ہوئی چھت اجاڑ دروازے
اک ایسے گھر کے سوا حاصل سفر کیا تھا
غزل
وہ ایک شور سا زنداں میں رات بھر کیا تھا
شمیم حنفی