آج آنکھوں میں کوئی رات گئے آئے گا
آج کی رات یہ دروازہ کھلا رہنے دے
شکیل اعظمی
اپنی منزل پہ پہنچنا بھی کھڑے رہنا بھی
کتنا مشکل ہے بڑے ہو کے بڑے رہنا بھی
شکیل اعظمی
بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے
جھوٹ آ جائے تو سچائی چلی جاتی ہے
شکیل اعظمی
بس اک پکار پہ دروازہ کھول دیتے ہیں
ذرا سا صبر بھی ان آنسوؤں سے ہوتا نہیں
شکیل اعظمی
بھوک میں عشق کی تہذیب بھی مر جاتی ہے
چاند آکاش پہ تھالی کی طرح لگتا ہے
شکیل اعظمی
بچھڑ کے بھی وہ مرے ساتھ ہی رہا ہر دم
سفر کے بعد بھی میں ریل میں سوار رہا
شکیل اعظمی
گھر کے دیوار و در پہ شام ہی سے
نظم لکھتا ہوا ہے سناٹا
شکیل اعظمی
حادثے شہر کا دستور بنے جاتے ہیں
اب یہاں سایۂ دیوار نہ ڈھونڈھیں کوئی
شکیل اعظمی
ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے
کچھ ہنر چاہئے بازار میں رہنے کے لیے
شکیل اعظمی