بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے
جھوٹ آ جائے تو سچائی چلی جاتی ہے
رات بھر جاگتے رہنے کا عمل ٹھیک نہیں
چاند کے عشق میں بینائی چلی جاتی ہے
میں نے اس شہر کو دیکھا بھی نہیں جی بھر کے
اور طبیعت ہے کہ گھبرائی چلی جاتی ہے
کچھ دنوں کے لیے منظر سے اگر ہٹ جاؤ
زندگی بھر کی شناسائی چلی جاتی ہے
پیار کے گیت ہواؤں میں سنے جاتے ہیں
دف بجاتی ہوئی رسوائی چلی جاتی ہے
چھپ سے گرتی ہے کوئی چیز رکے پانی میں
دور تک پھٹتی ہوئی کائی چلی جاتی ہے
مست کرتی ہے مجھے اپنے لہو کی خوشبو
زخم سب کھول کے پروائی چلی جاتی ہے
در و دیوار پہ چہرے سے ابھر آتے ہیں
جسم بنتی ہوئی تنہائی چلی جاتی ہے
غزل
بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے
شکیل اعظمی