آنکھ تمہاری مست بھی ہے اور مستی کا پیمانہ بھی
ایک چھلکتے ساغر میں مے بھی ہے مے خانہ بھی
ساغر نظامی
آؤ اک سجدہ کروں عالم بد سمتی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ساغر نظامی
ڈھونڈھنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے
وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتا یاد نہیں
ساغر نظامی
دل کی بربادیوں کا رونا کیا
ایسے کتنے ہی واقعات ہوئے
ساغر نظامی
گل اپنے غنچے اپنے گلستاں اپنا بہار اپنی
گوارا کیوں چمن میں رہ کے ظلم باغباں کر لیں
ساغر نظامی
حسن نے دست کرم کھینچ لیا ہے کیا خوب
اب مجھے بھی ہوس لذت آزار نہیں
ساغر نظامی
کافر گیسو والوں کی رات بسر یوں ہوتی ہے
حسن حفاظت کرتا ہے اور جوانی سوتی ہے
ساغر نظامی
خراماں خراماں معطر معطر
نسیم آ رہی ہے کہ وہ آ رہے ہیں
ساغر نظامی
نظر کرم کی فراوانیوں پہ پڑتی ہے
پھر اپنے دامن خاکی کو دیکھتا ہوں میں
ساغر نظامی