دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں
ہے وہی عشق کی دنیا مگر آباد نہیں
ڈھونڈھنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے
وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں
روح بلبل نے خزاں بن کے اجاڑا گلشن
پھول کہتے رہے ہم پھول ہیں صیاد نہیں
حسن سے چوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ
عشق سے بھول ہوئی ہے یہ مجھے یاد نہیں
بربت ماہ پہ مضراب فغاں رکھ دی تھی
میں نے اک نغمہ سنایا تھا تمہیں یاد نہیں
لاؤ اک سجدہ کروں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
غزل
دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں
ساغر نظامی