آتش عشق سے بچئے کہ یہاں ہم نے بھی
موم کی طرح سے پتھر کو پگھلتے دیکھا
قیصر خالد
اب اس طرح بھی روایت سے انحراف نہ کر
بدل اگرچہ تو اچھا نہ دے، خراب تو دے
قیصر خالد
باتوں سے پھول جھڑتے تھے لیکن خبر نہ تھی
اک دن لبوں سے ان کے ہی نشتر بھی آئیں گے
قیصر خالد
ڈال دی پیروں میں اس شخص کے زنجیر یہاں
وقت نے جس کو زمانے میں اچھلتے دیکھا
قیصر خالد
ہو پائے کسی کے ہم بھی کہاں یوں کوئی ہمارا بھی نہ ہوا
کب ٹھہری کسی اک پر بھی نظر کیا چیز ہے شہر خوباں بھی
قیصر خالد
کچھ تو ہی بتا آخر کیوں کر ترے بندوں پر
ہر شب ہے نئی آفت ہر روز مصیبت ہے
قیصر خالد
مہمل ہے نہ جانیں تو، سمجھیں تو وضاحت ہے
ہے زیست فقط دھوکا اور موت حقیقت ہے
قیصر خالد
تیرے بن حیات کی سوچ بھی گناہ تھی
ہم قریب جاں ترا حصار دیکھتے رہے
قیصر خالد
عمر بھر کھل نہیں پاتے ہیں رموز و اسرار
لوگ کچھ سامنے رہ کر بھی نہاں ہوتے ہیں
قیصر خالد