EN हिंदी
مہمل ہے نہ جانیں تو، سمجھیں تو وضاحت ہے | شیح شیری
mohmal hai na jaanen to, samjhen to wazahat hai

غزل

مہمل ہے نہ جانیں تو، سمجھیں تو وضاحت ہے

قیصر خالد

;

مہمل ہے نہ جانیں تو، سمجھیں تو وضاحت ہے
ہے زیست فقط دھوکا اور موت حقیقت ہے

ہم پر یہ عنایت بھی، کیا تیری محبت ہے
آنا بھی قیامت ہے جانا بھی قیامت ہے

کھلتا ہی نہیں اس کی ان خاص اداؤں میں
تمہید محبت ہے، ضد ہے کہ شرارت ہے

توہین وفا ہے یہ، ہنگامہ ہے کیوں اتنا
اس دشت وفا میں کیا پہلی یہ شہادت ہے

بدلا ہے زمانہ بس، حالات نہیں بدلے
حق گوئی میں لوگوں کو اب بھی تو قباحت ہے

اک ضد کے سبب دونوں مشکوک ہیں اب تک بھی
انکار ہے ہونٹوں پر آنکھوں میں محبت ہے

یہ معرکہ آرائی کیا ایک طرف سے تھی
کچھ اپنے کئے پر بھی کیا تم کو ندامت ہے

کچھ تو ہی بتا آخر کیوں کر ترے بندوں پر
ہر شب ہے نئی آفت ہر روز مصیبت ہے

مانا، ہو تماشائی تم ظلم مسلسل کے
لیکن یہ خموشی بھی ظالم کی حمایت ہے

تو اپنی خطاؤں پر نادم بھی ذرا ہو جا
اے دوست اگر تجھ میں تھوڑی بھی شرافت ہے

کچھ دہر پرستوں نے سفاک دلی برتی
کچھ حد سے زیادہ ہی ہم میں بھی شرافت ہے

کیا شوق جنوں تھا جو آئے تھے یہاں خالدؔ
اس دشت وفا میں تو ہر لمحہ اذیت ہے