EN हिंदी
تذکرے فہم و خرد کے تو یہاں ہوتے ہیں | شیح شیری
tazkire fahm o KHirad ke to yahan hote hain

غزل

تذکرے فہم و خرد کے تو یہاں ہوتے ہیں

قیصر خالد

;

تذکرے فہم و خرد کے تو یہاں ہوتے ہیں
عقل کی حد سے مگر آگے گماں ہوتے ہیں

چھوڑ جاتے ہیں کہیں پاس ترے اپنا وجود
گھر پہنچ کر بھی تو ہم گھر میں کہاں ہوتے ہیں

خواب و امید، گماں، اس کا تصور، چاہت
تلخی زیست میں یہ راحت جاں ہوتے ہیں

کس طرح عرض گزاری سے انہیں روکا ہے
ایسے جذبے کہ جو چھپتے نہ عیاں ہوتے ہیں

عشق میں طرز تکلم کی روایت ہے عجب
کلمۂ خاص نگاہوں سے بیاں ہوتے ہیں

خواب جب جب ہوئے زخمی تو ہوے شعر نئے
ورنہ یہ معجزے ہر روز کہاں ہوتے ہیں

صرف پندار خرد ہی تو نہیں شغل حیات
ماتم علم و عمل بھی تو یہاں ہوتے ہیں

سختیٔ حشر سے ہوں گے نہ کسی طور بھی کم
ان کے ہمراہ وہ لمحے جو گراں ہوتے ہیں

آتش دل ہے یا پھر سوزش جاں ہے، کیا ہے؟
ایک اک کر کے سبھی خواب دھواں ہوتے ہیں

نسل نو کے ہیں نئے شغل، نئی ہی تہذیب
بزم امروز میں اذکار بتاں ہوتے ہیں

اکثر اوقات تباہی کا سبب ہوں، لیکن
کچھ حوادث بھی مگر وجہ اماں ہوتے ہیں

عمر بھر کھل نہیں پاتے ہیں رموز و اسرار
لوگ کچھ سامنے رہ کر بھی نہاں ہوتے ہیں

بارہا ٹوٹ کے بھی، ہیں کہیں موجود ابھی
ولولے وہ جو ترے ساتھ جواں ہوتے ہیں

ہم کو تو مل نہ سکے، تم کو ملے ہوں گے کہیں
وہ جو ہر حال میں پابند زباں ہوتے ہیں

کیا کہا اس نے، یہ کیا کہہ کے پکارا خالدؔ
ایسے کچھ جملے ادا وقت اذاں ہوتے ہیں