آئے تو دل تھا باغ باغ اور گئے تو داغ داغ
کتنی خوشی وہ لائے تھے کتنا ملال دے گئے
نظیر صدیقی
ابھی سے وہ دامن چھڑانے لگے ہو
جو اب تک مرے ہاتھ آیا نہیں ہے
نظیر صدیقی
اور ہی وہ لوگ ہیں جن کو ہے یزداں کی تلاش
مجھ کو انسانوں کی دنیا میں ہے انساں کی تلاش
نظیر صدیقی
ہم سے شکایتیں بجا ہم کو بھی ہے مگر گلہ
پہلے سے ہم نہیں اگر پہلے سے آپ بھی نہیں
نظیر صدیقی
جس درجہ نیک ہونے کی ملتی رہی ہے داد
اس درجہ نیک بننے کا ارماں کبھی نہ تھا
نظیر صدیقی
جو لوگ موت کو ظالم قرار دیتے ہیں
خدا ملائے انہیں زندگی کے ماروں سے
نظیر صدیقی
کسی کی مہربانی سے محبت مطمئن کیا ہو
محبت تو محبت سے بھی آسودہ نہیں ہوتی
نظیر صدیقی
رات سے شکایت کیا بس تمہیں سے کہنا ہے
تم ذرا ٹھہر جاؤ رات کب ٹھہرتی ہے
نظیر صدیقی