EN हिंदी
آنکھوں میں بے رخی نہیں دل میں کشیدگی نہیں | شیح شیری
aaankhon mein be-ruKHi nahin dil mein kashidgi nahin

غزل

آنکھوں میں بے رخی نہیں دل میں کشیدگی نہیں

نظیر صدیقی

;

آنکھوں میں بے رخی نہیں دل میں کشیدگی نہیں
پھر بھی جو دیکھیے تو اب پہلی سی دوستی نہیں

رسم وفا کا التزام عہد وفا کا احترام
شیوۂ عاشقی تو ہے فطرت عاشقی نہیں

ہم سے شکایتیں بجا ہم کو بھی ہے مگر گلہ
پہلے سے ہم نہیں اگر پہلے سے آپ بھی نہیں

بزم طرب میں دوستو دیکھ رہا ہوں میں یہی
رقص میں آدمی تو ہیں رقص میں زندگی نہیں

منزل و راہ میں کبھی اتنا تو فاصلہ نہ تھا
راہبرو خطا معاف یہ کوئی راہبری نہیں

علم و ہنر کے فیض سے علم و ہنر کے باوجود
محفل زیست میں نظیرؔ رنگ ہے روشنی نہیں