اور کوئی پہچان مری بنتی ہی نہیں
جانتے ہیں سب لوگ کہ بس تیرا ہوں میں
ندیم بھابھہ
بد نصیبی کہ عشق کر کے بھی
کوئی دھوکہ نہیں ہوا مرے ساتھ
ندیم بھابھہ
دل مبتلائے ہجر رفاقت میں رہ گیا
لگتا ہے کوئی فرق محبت میں رہ گیا
ندیم بھابھہ
دل سے اک یاد بھلا دی گئی ہے
کسی غفلت کی سزا دی گئی ہے
ندیم بھابھہ
ہم غلامی کو مقدر کی طرح جانتے ہیں
ہم تری جیت تری مات سے نکلے ہوئے ہیں
ندیم بھابھہ
کچھ اس لیے بھی اکیلا سا ہو گیا ہوں ندیمؔ
سبھی کو دوست بنایا ہے دشمنی نہیں کی
ندیم بھابھہ
میں لو میں لو ہوں، الاؤ میں ہوں الاؤ ندیمؔ
سو ہر چراغ مرا اعتراف کرتا رہا
ندیم بھابھہ
محبت نے اکیلا کر دیا ہے
میں اپنی ذات میں اک قافلہ تھا
ندیم بھابھہ
محبت، ہجر، نفرت مل چکی ہے
میں تقریباً مکمل ہو چکا ہوں
ندیم بھابھہ