بہت شدت سے جو قائم ہوا تھا
وہ رشتہ ہم میں شاید جھوٹ کا تھا
محبت نے اکیلا کر دیا ہے
میں اپنی ذات میں اک قافلہ تھا
مری آنکھوں میں بارش کی گھٹن تھی
تمہارے پاؤں بادل چومتا تھا
تمہاری ہی گلی کا واقعہ ہے
میں پہلی بار جب تنہا ہوا تھا
کھجوروں کے درختوں سے بھی اونچا
مرے دل میں تمہارا مرتبہ تھا
پھر اس کے بعد رستے مر گئے تھے
میں بس اک سانس لینے کو رکا تھا
غزل
بہت شدت سے جو قائم ہوا تھا
ندیم بھابھہ