داور حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
ہمیں بھی دیکھ کہ ہم آرزو کے صحرا میں
کھلے ہوئے ہیں کسی زخم آرزو کی طرح
محمد دین تاثیر
حضور یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
محمد دین تاثیر
جس طرح ہم نے راتیں کاٹی ہیں
اس طرح ہم نے دن گزارے ہیں
محمد دین تاثیر
میری وفائیں یاد کرو گے
روؤگے فریاد کرو گے
محمد دین تاثیر
مجھ کو تو برباد کیا ہے
اور کسے برباد کرو گے
محمد دین تاثیر
ربط ہے حسن و عشق میں باہم
ایک دریا کے دو کنارے ہیں
محمد دین تاثیر
یہ دلیل خوش دلی ہے مرے واسطے نہیں ہے
وہ دہن کہ ہے شگفتہ وہ جبیں کہ ہے کشادہ
محمد دین تاثیر
یہ ڈر ہے قافلے والو کہیں نہ گم کر دے
مرا ہی اپنا اٹھایا ہوا غبار مجھے
محمد دین تاثیر