وہ ملے تو بے تکلف نہ ملے تو بے ارادہ
نہ طریق آشنائی نہ رسوم جام و بادہ
تری نیم کش نگاہیں ترا زیر لب تبسم
یونہی اک ادائے مستی یونہی اک فریب سادہ
وہ کچھ اس طرح سے آئے مجھے اس طرح سے دیکھا
مری آرزو سے کم تر مری تاب سے زیادہ
یہ دلیل خوش دلی ہے مرے واسطے نہیں ہے
وہ دہن کہ ہے شگفتہ وہ جبیں کہ ہے کشادہ
وہ قدم قدم پہ لغزش وہ نگاہ مست ساقی
یہ تراش زلف سرکش یہ کلاہ کج نہادہ
غزل
وہ ملے تو بے تکلف نہ ملے تو بے ارادہ
محمد دین تاثیر