عاشق کو دیکھتے ہیں دوپٹے کو تان کر
دیتے ہیں ہم کو شربت دیدار چھان کر
میر انیس
انیسؔ آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا
یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں
میر انیس
انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
میر انیس
اشک غم دیدۂ پر نم سے سنبھالے نہ گئے
یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے
میر انیس
گل دستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
میر انیس
کریم جو تجھے دینا ہے بے طلب دے دے
فقیر ہوں پہ نہیں عادت سوال مجھے
میر انیس
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
میر انیس
مثال ماہیٔ بے آب موج تڑپا کی
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے
میر انیس
تمام عمر جو کی ہم سے بے رخی سب نے
کفن میں ہم بھی عزیزوں سے منہ چھپا کے چلے
میر انیس