افسوس جن کے دم سے ہر اک سو ہیں نفرتیں
ہم نے تعلقات انہیں سے بڑھا لیے
ماجد دیوبندی
ان آنسوؤں کی حفاظت بہت ضروری ہے
اندھیری رات میں جگنو بھی کام آتے ہیں
ماجد دیوبندی
جس کو چاہیں بے عزت کر سکتے ہیں
آپ بڑے ہیں آپ کو یہ آسانی ہے
ماجد دیوبندی
خزاں کا ذکر تو میری زباں پہ تھا ہی نہیں
بہار کرتی ہے ماتم ترے حوالے سے
ماجد دیوبندی
میں جب بھی تجزیہ کرتا ہوں تیرا اے دنیا
اس آئینے میں تجھے بد چلن سی پاتا ہوں
ماجد دیوبندی
میری آنکھیں کچھ سوئی سی رہتی ہیں
شاید ان کا خواب نگر سے رشتہ ہے
ماجد دیوبندی
پھر تمہارے پاؤں چھونے خود بلندی آئے گی
سب دلوں پر راج کر کے تاج داری سیکھ لو
ماجد دیوبندی
یاد رکھو اک نہ اک دن سانپ باہر آئیں گے
آستینوں میں انہیں کب تک چھپایا جائے گا
ماجد دیوبندی