جیسے ان سجدوں کا سر سے رشتہ ہے
بالکل ایسا میرا گھر سے رشتہ ہے
میری آنکھیں کچھ سوئی سی رہتی ہیں
شاید ان کا خواب نگر سے رشتہ ہے
تجھ کو کیسے بھول سکے گا دل میرا
تیرا میرا تو اندر سے رشتہ ہے
اے شہزادی ساتھ ہمارے مت چلنا
بنجاروں کا دھوپ سفر سے رشتہ ہے
لوح فلک پر لکھی ہے جس کی عزت
ہم لوگوں کا اس کے در سے رشتہ ہے
جس کے سائے میں ہم بخشے جائیں گے
ہم لوگوں کا اس چادر سے رشتہ ہے
وہ اوروں پر سنگ اچھالے نا ممکن
ماجدؔ کا شیشے کے گھر سے رشتہ ہے
غزل
جیسے ان سجدوں کا سر سے رشتہ ہے
ماجد دیوبندی