کوئی ادا جو کہیں اپنے پن سی پاتا ہوں
دیار غیر میں ٹھنڈک وطن سی پاتا ہوں
میں جب بھی تجزیہ کرتا ہوں تیرا اے دنیا
اس آئینے میں تجھے بد چلن سی پاتا ہوں
خدا کرے کہ مرے دوست خیریت سے ہوں
عجیب طرح کی دل میں چبھن سی پاتا ہوں
بدلنے والا ہے شاید مزاج موسم کا
جبین وقت کو میں پرشکن سی پاتا ہوں
سکون ملتا ہے یاروں سے معذرت کر کے
تعلقات میں جب بھی گھٹن سی پاتا ہوں
خدا ہی رکھے مرے کارواں کی خیر اب تو
کہ راہ بر میں ادا راہزن سی پاتا ہوں
میں دشمنوں میں نہیں دوستوں میں ہوں ماجدؔ
یہاں تو اور زیادہ گھٹن سی پاتا ہوں
غزل
کوئی ادا جو کہیں اپنے پن سی پاتا ہوں
ماجد دیوبندی