آج کل جو کثرت شوریدگان عشق ہے
روز ہوتے جاتے ہیں حداد نوکر سیکڑوں
ماتم فضل محمد
آج مسجد میں نظر آتا تو ہے میکش مگر
مطلب اس کا بیچنا ہے شیخ کی دستار کا
ماتم فضل محمد
آتش کا شعر پڑھتا ہوں اکثر بحسب حال
دل صید ہے وہ بحر سخن کے نہنگ کا
ماتم فضل محمد
اگر سمجھو نماز زاہد مغرور یارو
ہزاروں بار بہتر تر ہماری بے نمازی ہے
ماتم فضل محمد
اپنے بھی عشق کو زوال نہ ہو
نہ تمہارے جمال کو ہے کمال
ماتم فضل محمد
چھوٹتا ہے ایک تو پھنستے ہیں آ کر اس میں دو
آج کل ہے گرم تر کیا خوب بازار قفس
ماتم فضل محمد
دریا میں وہ دھویا تھا کبھی دست حنائی
حسرت سے وہیں پنجۂ مرجاں میں لگی آگ
ماتم فضل محمد
دیکھ کر ہاتھ میں تسبیح گلے میں زنار
مجھ سے بیزار ہوئے کافر و دیں دار جدا
ماتم فضل محمد
دیتا ہے روز روز دلاسے نئے نئے
کس طرح اعتبار ہو حافظؔ کے فال پر
ماتم فضل محمد