EN हिंदी
شعلوں سے محبت کی مری جاں میں لگی آگ | شیح شیری
shoalon se mohabbat ki meri jaan mein lagi aag

غزل

شعلوں سے محبت کی مری جاں میں لگی آگ

ماتم فضل محمد

;

شعلوں سے محبت کی مری جاں میں لگی آگ
پھر جاں سے بھڑک جسم کے میداں میں لگی آگ

یہ آتش غم ہے کہ دم سرد سے اپنے
سرچشمۂ خورشید درخشاں میں لگی آگ

اس حور کے کوچے میں بھرے ہم جو دم گرم
مردم نے کہا روضۂ رضواں میں لگی آگ

خنداں جو ہوا یار ہمیں دیکھ کے گریاں
لوگوں نے کہا برق سے باراں میں لگی آگ

ان روزوں میں ہے رنگ جو اشکوں کا گلابی
شاید کہ مرے دیدۂ گریاں میں لگی آگ

گرمی سے نگر کے ترے گن آب ہوا دیکھ
بلبل نے پکارا کہ گلستاں میں لگی آگ

ناری ہیں جو پریاں یہ سبب ہے کہ تمہارے
نور رخ روشن سے پرستاں میں لگی آگ

اس آتشیں رو کو بہ لب بام جو دیکھا
عالم نے کہا گنبد گرداں میں لگی آگ

دریا میں وہ دھویا تھا کبھی دست حنائی
حسرت سے وہیں پنجۂ مرجاں میں لگی آگ

غیروں کی طرف جو نظر مہر سے دیکھا
غیرت سے مرے سینۂ سوزاں میں لگی آگ

کیوں کوہ کن و قیس رہیں مجھ سے نہ نالاں
نالوں سے مرے کوہ و بیاباں میں لگی آگ

وہ سوختہ دل ہوں میں پس از مرگ جو گزرا
مرقد سے مرے یار کے داماں میں لگی آگ

ماتمؔ ہے کسی سوختہ دل کا اثر آہ
بے وجہ نہیں کوچۂ جاناں میں لگی آگ