EN हिंदी
ماتم فضل محمد شیاری | شیح شیری

ماتم فضل محمد شیر

24 شیر

دریا میں وہ دھویا تھا کبھی دست حنائی
حسرت سے وہیں پنجۂ مرجاں میں لگی آگ

ماتم فضل محمد




چھوٹتا ہے ایک تو پھنستے ہیں آ کر اس میں دو
آج کل ہے گرم تر کیا خوب بازار قفس

ماتم فضل محمد




اپنے بھی عشق کو زوال نہ ہو
نہ تمہارے جمال کو ہے کمال

ماتم فضل محمد




اگر سمجھو نماز زاہد مغرور یارو
ہزاروں بار بہتر تر ہماری بے نمازی ہے

ماتم فضل محمد




آتش کا شعر پڑھتا ہوں اکثر بحسب حال
دل صید ہے وہ بحر سخن کے نہنگ کا

ماتم فضل محمد




آج مسجد میں نظر آتا تو ہے میکش مگر
مطلب اس کا بیچنا ہے شیخ کی دستار کا

ماتم فضل محمد