ہندو بچہ نے چھین کے دل مجھ سے یوں کہا
ہندوستاں بھی کشور ترکاں سے کم نہیں
ماتم فضل محمد
آج کل جو کثرت شوریدگان عشق ہے
روز ہوتے جاتے ہیں حداد نوکر سیکڑوں
ماتم فضل محمد
دیتا ہے روز روز دلاسے نئے نئے
کس طرح اعتبار ہو حافظؔ کے فال پر
ماتم فضل محمد
دیکھ کر ہاتھ میں تسبیح گلے میں زنار
مجھ سے بیزار ہوئے کافر و دیں دار جدا
ماتم فضل محمد
دریا میں وہ دھویا تھا کبھی دست حنائی
حسرت سے وہیں پنجۂ مرجاں میں لگی آگ
ماتم فضل محمد
چھوٹتا ہے ایک تو پھنستے ہیں آ کر اس میں دو
آج کل ہے گرم تر کیا خوب بازار قفس
ماتم فضل محمد
اپنے بھی عشق کو زوال نہ ہو
نہ تمہارے جمال کو ہے کمال
ماتم فضل محمد
اگر سمجھو نماز زاہد مغرور یارو
ہزاروں بار بہتر تر ہماری بے نمازی ہے
ماتم فضل محمد
آتش کا شعر پڑھتا ہوں اکثر بحسب حال
دل صید ہے وہ بحر سخن کے نہنگ کا
ماتم فضل محمد