اپنا خط آپ دیا ان کو مگر یہ کہہ کر
خط تو پہچانئے یہ خط مجھے گمنام ملا
کیفی حیدرآبادی
اور بھی تو ہیں زمانے میں تمہارے عاشق
ایک میں ہی تمہیں کیا قابل الزام ملا
کیفی حیدرآبادی
دل لینے کے انداز بھی کچھ سیکھ گیا ہوں
صحبت میں حسینوں کی بہت روز رہا ہوں
کیفی حیدرآبادی
ہم آپ کو دیکھتے تھے پہلے
اب آپ کی راہ دیکھتے ہیں
کیفی حیدرآبادی
ہر طور ہر طرح کی جو ذلت مجھی کو ہے
دنیا میں کیا کسی سے محبت مجھی کو ہے
کیفی حیدرآبادی
خم سبو ساغر صراحی جام پیمانہ مرا
میرے ساقی جب مرا تو ہے تو مے خانہ مرا
کیفی حیدرآبادی
مزا ہے ترے بسملوں کو تڑپ میں
تڑپ میں نہیں بسملوں میں مزا ہے
کیفی حیدرآبادی
محبت میں کیا کیا نہ کچھ جور ہوگا
ابھی کیا ہوا ہے ابھی اور ہوگا
کیفی حیدرآبادی
رقیب دونوں جہاں میں ذلیل کیوں ہوتا
کسی کے بیچ میں کمبخت اگر نہیں آتا
کیفی حیدرآبادی