ہر طور ہر طرح کی جو ذلت مجھی کو ہے
دنیا میں کیا کسی سے محبت مجھی کو ہے
خود میں نے اپنے آپ کو بد نام کر دیا
ثابت ہوا کہ مجھ سے عداوت مجھی کو ہے
تم بھی تو روز دیکھتے رہتے ہو آئینہ
سچ بولو کیا پسند یہ صورت مجھی کو ہے
تم کو تو کچھ ضرور نہیں پاس دوستی
ہاں یہ ضرور ہے کہ ضرورت مجھی کو ہے
جب لطف تھا کہ اس کو بھی ہوتا مرا خیال
کیفیؔ غضب تو یہ ہے محبت مجھی کو ہے
غزل
ہر طور ہر طرح کی جو ذلت مجھی کو ہے
کیفی حیدرآبادی