احوال دیکھ کر مری چشم پر آب کا
دریا سے آج ٹوٹ گیا دل حباب کا
جوشش عظیم آبادی
اے چرخ بے کسی پہ ہماری نظر نہ کر
جو کچھ کہ تجھ سے ہو سکے تو در گزر نہ کر
جوشش عظیم آبادی
اے زلف یار تجھ سے بھی آشفتہ تر ہوں میں
مجھ سا نہ کوئی ہوگا پریشان روزگار
جوشش عظیم آبادی
ایسی مرے خزانۂ دل میں بھری ہے آگ
فوارہ چھوٹتا ہے مژہ سے شرار کا
جوشش عظیم آبادی
اللہ تا قیامت تجھ کو رکھے سلامت
کیا کیا ستم نہ دیکھے ہم نے ترے کرم سے
جوشش عظیم آبادی
اپنا دشمن ہو اگر کچھ ہے شعور
انتظار وعدۂ فردا نہ کر
جوشش عظیم آبادی
بس کر یہ خیال آفرینی
اس کے ہی خیال میں رہا کر
جوشش عظیم آبادی
بے گنہ کہتا پھرے ہے آپ کو
شیخ نسل حضرت آدم نہیں
جوشش عظیم آبادی
بھول جاتا ہوں میں خدائی کو
اس سے جب رام رام ہوتی ہے
جوشش عظیم آبادی