آپس کی گفتگو میں بھی کٹنے لگی زباں
اب دوستوں سے ترک ملاقات چاہئے
جعفر طاہر
اے وطن جب بھی سر دشت کوئی پھول کھلا
دیکھ کر تیرے شہیدوں کی نشانی رویا
جعفر طاہر
عرصۂ ظلمت حیات کٹے
ہم نفس مسکرا کہ رات کٹے
جعفر طاہر
اک عمر بھٹکتے ہوئے گزری ہے جنوں میں
اب کون فریب نگہ یار میں آئے
جعفر طاہر
جب بھی دیکھی ہے کسی چہرے پہ اک تازہ بہار
دیکھ کر میں تری تصویر پرانی رویا
جعفر طاہر
ناز ہر بت کے اٹھا پائے نہ جعفرؔ طاہر
چوم کر چھوڑ دیے ہم نے یہ بھاری پتھر
جعفر طاہر
طاہرؔ خدا کی راہ میں دشواریاں سہی
عشق بتاں میں کون سی آسانیاں رہیں
جعفر طاہر
تجھے بھی دیکھ لیا ہم نے او خدائے اجل
کہ تیرا زور چلا بھی تو اہل غم پہ چلا
جعفر طاہر
اٹھی تھی پہلی بار جدھر چشم آرزو
وہ لوگ پھر ملے نہ وہ بستی نظر پڑی
جعفر طاہر