EN हिंदी
کہنے کو تو کیا کیا نہ دل زار میں آئے | شیح شیری
kahne ko to kya kya na dil-e-zar mein aae

غزل

کہنے کو تو کیا کیا نہ دل زار میں آئے

جعفر طاہر

;

کہنے کو تو کیا کیا نہ دل زار میں آئے
ہر بات کہاں قالب‌‌ اظہار میں آئے

نزدیک جو پہنچے تو وہ آہوں کا دھواں تھا
کہنے کو تو ہم سایۂ دیوار میں آئے

ہر موجۂ خوں سر سے گزر جائے تو اچھا
ہر پھول مرے حلقۂ دستار میں آئے

ہم اپنی صلیبوں کی حفاظت میں کھڑے ہیں
اب جو بھی شکن گیسوئے دل دار میں آئے

پاؤں میں اگر طوق و سلاسل ہیں تو کیا غم
اے ہم سفرو فرق نہ رفتار میں آئے

اک عمر بھٹکتے ہوئے گزری ہے جنوں میں
اب کون فریب نگہ یار میں آئے

اے کاش کبھی اس کا ادھر سے بھی گزر ہو
اک دن تو صبا لوٹ کے گلزار میں آئے

جچتے بھی تو کیا چشم خریدار میں طاہرؔ
ہم کون سے یوسف تھے جو بازار میں آئے