آنکھوں کا تو کام ہی ہے رونا
یہ گریۂ بے سبب ہے پیارے
فضل احمد کریم فضلی
اہل ہنر کے دل میں دھڑکتے ہیں سب کے دل
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
فضل احمد کریم فضلی
فریب کرم اک تو ان کا ہے اس پر
ستم میری خوش فہمیاں اور بھی ہیں
فضل احمد کریم فضلی
غم دوراں میں کہاں بات غم جاناں کی
نظم ہے اپنی جگہ خوب مگر ہائے غزل
فضل احمد کریم فضلی
ہے سخت مشکل میں جان ساقی پلائے آخر کدھر سے پہلے
سبھی کی آنکھیں یہ کہہ رہی ہیں ادھر سے پہلے ادھر سے پہلے
فضل احمد کریم فضلی
ہمارے ان کے تعلق کا اب یہ عالم ہے
کہ دوستی کا ہے کیا ذکر دشمنی بھی نہیں
فضل احمد کریم فضلی
نقاب ان نے رخ سے اٹھائی تو لیکن
حجابات کچھ درمیاں اور بھی ہیں
فضل احمد کریم فضلی