غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں
نہ ہو یہ کھیل تو پھر لطف زندگی بھی نہیں
نہیں کہ دل میں تمنا مرے کوئی بھی نہیں
مگر یہ بات کچھ ایسی کی گفتنی بھی نہیں
ابھی میں کیا اٹھوں نیت ابھی بھری بھی نہیں
ستم یہ اور کہ مے کی ابھی کمی بھی نہیں
ادائیں ان کی سناتی ہیں مجھ کو میری غزل
غزل بھی وہ کہ جو میں نے ابھی کہی بھی نہیں
حضور دوست مرے گو مگو کے عالم نے
کہا بھی ان سے جو کہنا تھا بات کی بھی نہیں
ہمارے ان کے تعلق کا اب یہ عالم ہے
کہ دوستی کا ہے کیا ذکر دشمنی بھی نہیں
کہا جو ترک محبت کو شیخ نے کھلا
فرشتہ تو نہیں لیکن یہ آدمی بھی نہیں
غزل
غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں
فضل احمد کریم فضلی