EN हिंदी
بہرام جی شیاری | شیح شیری

بہرام جی شیر

14 شیر

ڈھونڈھ کر دل میں نکالا تجھ کو یار
تو نے اب محنت مری بیکار کی

بہرام جی




ہے مسلماں کو ہمیشہ آب زمزم کی تلاش
اور ہر اک برہمن گنگ و جمن میں مست ہے

بہرام جی




عشق میں دل سے ہم ہوئے محو تمہارے اے بتو
خالی ہیں چشم و دل کرو ان میں گزر کسی طرح

بہرام جی




جا بجا ہم کو رہی جلوۂ جاناں کی تلاش
دیر و کعبہ میں پھرے صحبت رہباں میں رہے

بہرام جی




کہیں خالق ہوا کہیں مخلوق
کہیں بندہ کہیں خدا دیکھا

بہرام جی




کہتا ہے یار جرم کی پاتے ہو تم سزا
انصاف اگر نہیں ہے تو بیداد بھی نہیں

بہرام جی




میں برہمن و شیخ کی تکرار سے سمجھا
پایا نہیں اس یار کو جھنجھلائے ہوئے ہیں

بہرام جی




نہیں بت خانہ و کعبہ پہ موقوف
ہوا ہر ایک پتھر میں شرر بند

بہرام جی




نہیں دنیا میں آزادی کسی کو
ہے دن میں شمس اور شب کو قمر بند

بہرام جی