EN हिंदी
کیا ہے صندلیں رنگوں نے در بند | شیح شیری
kiya hai sandalin-rangon ne dar band

غزل

کیا ہے صندلیں رنگوں نے در بند

بہرام جی

;

کیا ہے صندلیں رنگوں نے در بند
مرا ہو کس طرح سے درد سر بند

نہیں ہیں تیرے دام زلف میں دل
لٹکتے ہیں ہزاروں مرغ پر بند

نہیں بت خانہ و کعبہ پہ موقوف
ہوا ہر ایک پتھر میں شرر بند

رقیبوں سے ہوئی ہے بزم خالی
کرو دروازہ بے خوف و خطر بند

تماشا بند آنکھوں میں ہے مجھ کو
ہوئی میری بظاہر چشم تر بند

نہیں دنیا میں آزادی کسی کو
ہے دن میں شمس اور شب کو قمر بند

دکھاؤ مے کشو اب زور مستی
کیا زاہد نے مے خانے کا در بند

در جاناں بھی اک مرجع ہے بہرامؔ
ہجوم عاشقاں ہے رہ گزر بند