EN हिंदी
اظہر اقبال شیاری | شیح شیری

اظہر اقبال شیر

9 شیر

ایک مدت سے ہیں سفر میں ہم
گھر میں رہ کر بھی جیسے بے گھر سے

اظہر اقبال




گھٹن سی ہونے لگی اس کے پاس جاتے ہوئے
میں خود سے روٹھ گیا ہوں اسے مناتے ہوئے

اظہر اقبال




ہے اب بھی بستر جاں پر ترے بدن کی شکن
میں خود ہی مٹنے لگا ہوں اسے مٹاتے ہوئے

اظہر اقبال




ہر ایک سمت یہاں وحشتوں کا مسکن ہے
جنوں کے واسطے صحرا و آشیانہ کیا

اظہر اقبال




ہر ایک شخص یہاں محو خواب لگتا ہے
کسی نے ہم کو جگایا نہیں بہت دن سے

اظہر اقبال




نہ جانے ختم ہوئی کب ہماری آزادی
تعلقات کی پابندیاں نبھاتے ہوئے

اظہر اقبال




پھر اس کے بعد منایا نہ جشن خوشبو کا
لہو میں ڈوبی تھی فصل بہار کیا کرتے

اظہر اقبال




تمہارے آنے کی امید بر نہیں آتی
میں راکھ ہونے لگا ہوں دئیے جلاتے ہوئے

اظہر اقبال




یہ کیفیت ہے میری جان اب تجھے کھو کر
کہ ہم نے خود کو بھی پایا نہیں بہت دن سے

اظہر اقبال