EN हिंदी
تمہاری یاد کے دیپک بھی اب جلانا کیا | شیح شیری
tumhaari yaad ke dipak bhi ab jalana kya

غزل

تمہاری یاد کے دیپک بھی اب جلانا کیا

اظہر اقبال

;

تمہاری یاد کے دیپک بھی اب جلانا کیا
جدا ہوئے ہیں تو عہد وفا نبھانا کیا

بسیط ہونے لگی شہر جاں پہ تاریکی
کھلا ہوا ہے کہیں پر شراب خانہ کیا

کھڑے ہوئے ہو میاں گنبدوں کے سائے میں
صدائیں دے کے یہاں پر فریب کھانا کیا

ہر ایک سمت یہاں وحشتوں کا مسکن ہے
جنوں کے واسطے صحرا و آشیانہ کیا

وہ چاند اور کسی آسماں پہ روشن ہے
سیاہ رات ہے اس کی گلی میں جانا کیا