EN हिंदी
یہ بار غم بھی اٹھایا نہیں بہت دن سے | شیح شیری
ye bar-e-gham bhi uThaya nahin bahut din se

غزل

یہ بار غم بھی اٹھایا نہیں بہت دن سے

اظہر اقبال

;

یہ بار غم بھی اٹھایا نہیں بہت دن سے
کہ اس نے ہم کو رلایا نہیں بہت دن سے

چلو کہ خاک اڑائیں چلو شراب پئیں
کسی کا ہجر منایا نہیں بہت دن سے

یہ کیفیت ہے میری جان اب تجھے کھو کر
کہ ہم نے خود کو بھی پایا نہیں بہت دن سے

ہر ایک شخص یہاں محو خواب لگتا ہے
کسی نے ہم کو جگایا نہیں بہت دن سے

یہ خوف ہے کہ رگوں میں لہو نہ جم جائے
تمہیں گلے سے لگایا نہیں بہت دن سے