آنسوؤں کی طرح وجود مرا
بہتا جاتا ہے آبشار کے ساتھ
اظہر عباس
اکیلا میں ہی نہیں جا رہا ہوں بستی سے
یہ روشنی بھی مرے ساتھ جانے والی ہے
اظہر عباس
اپنے ویرانے کا نقصان نہیں چاہتا میں
یعنی اب دوسرا انسان نہیں چاہتا میں
اظہر عباس
ہنسی مذاق کی باتیں یہیں پہ ختم ہوئیں
اب اس کے بعد کہانی رلانے والی ہے
اظہر عباس
ہاتھ پتھر سے ہو گئے مانوس
شوق کوزہ گری کا کیا کیجے
اظہر عباس
جو رکاوٹ تھی ہماری راہ کی
راستہ نکلا اسی دیوار سے
اظہر عباس
مجھے بیان کر رہا تھا کوئی شخص
میں اپنی داستان ڈھونڈھتا رہا
اظہر عباس
سنا رہا ہے کہانی ہمیں مکینوں کی
مکاں کے ساتھ یہ آدھا جلا ہوا بستر
اظہر عباس
تو کہانی کے بدلتے ہوئے منظر کو سمجھ
خون روتے ہوئے کردار کی جانب مت دیکھ
اظہر عباس