EN हिंदी
پنچھیوں کی کسی قطار کے ساتھ | شیح شیری
panchhiyon ki kisi qatar ke sath

غزل

پنچھیوں کی کسی قطار کے ساتھ

اظہر عباس

;

پنچھیوں کی کسی قطار کے ساتھ
بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ

کام آسان تو نہیں پھر بھی
جی رہے ہیں دل فگار کے ساتھ

آنسوؤں کی طرح وجود مرا
بہتا جاتا ہے آبشار کے ساتھ

اڑ رہا ہے جو تیری گلیوں میں
میں بھی شامل ہوں اس غبار کے ساتھ

شام وحشت کہاں پہ لے آئی
تو مجھے اپنے انتظار کے ساتھ

اور بھی اک حصار ہے اظہرؔ
شہر زنداں کے اس حصار کے ساتھ