دیکھ قندیل رخ یار کی جانب مت دیکھ
تیز تلوار ہے تلوار کی جانب مت دیکھ
بول کتنی ہے ترے سامنے قیمت میری
چھوڑ بازار کو بازار کی جانب مت دیکھ
دیکھنا ہے تو مجھے دیکھ کہ میں کیسا ہوں
میرے اجڑے ہوئے گھر بار کی جانب مت دیکھ
اور بڑھ جائے گی تنہائی تجھے کیا معلوم
ایسی تنہائی میں دیوار کی جانب مت دیکھ
آگے نکلا ہے تو پھر آگے نکلتا چلا جا
پیچھے ہٹتے ہوئے سالار کی جانب مت دیکھ
تو مرے سامنے آیا ہے تو پھر دیکھ مجھے
میری ٹوٹی ہوئی تلوار کی جانب مت دیکھ
تو کہانی کے بدلتے ہوئے منظر کو سمجھ
خون روتے ہوئے کردار کی جانب مت دیکھ
تیرا دل ہی نہ کہیں کاٹ کے رکھ دے اظہرؔ
آنکھ سے گرتی ہوئی دھار کی جانب مت دیکھ
غزل
دیکھ قندیل رخ یار کی جانب مت دیکھ
اظہر عباس