آندھیاں سب کچھ اڑا کر لے گئیں
پیڑ پر پتہ نہ پھل دامن میں تھا
عقیل شاداب
برائے نام سہی کوئی مہربان تو ہے
ہمارے سر پہ بھی ہونے کو آسمان تو ہے
عقیل شاداب
چادر میلی ہو گئی اب کیسے لوٹاؤں
اپنے پیا کے سامنے جاتے ہوئے شرماؤں
عقیل شاداب
گمان ہی اثاثہ تھا یقین کا
یقین ہی گمان میں نہیں رہا
عقیل شاداب
ہے لفظ و معنی کا رشتہ زوال آمادہ
خیال پیدا ہوا بھی نہ تھا کہ مر بھی گیا
عقیل شاداب
ہر ایک لمحہ سروں پہ ہے سانحہ ایسا
ہر ایک سانس گزرتی ہے حادثات ایسی
عقیل شاداب
ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا
وہ خود ہی جمع ہوا اور خود بکھر بھی گیا
عقیل شاداب
ہوا جو سہل اس کے گھر کا راستہ
مزہ ہی کچھ تکان میں نہیں رہا
عقیل شاداب
اک کانٹے سے دوسرا میں نے لیا نکال
پھولوں کا اس دیس میں کیسا پڑا اکال
عقیل شاداب