ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا
وہ خود ہی جمع ہوا اور خود بکھر بھی گیا
تھی زندگی مری راہوں کے پیچ و خم کی اسیر
مگر میں رات کے ہم راہ اپنے گھر بھی گیا
میں دشمنوں میں بھی گھر کر نڈر رہا لیکن
خود اپنے جذبۂ حیوانیت سے ڈر بھی گیا
مرے لہو کی طلب نے مجھے تباہ کیا
ہوس میں سنگ کی ہاتھوں سے میرے سر بھی گیا
ہے لفظ و معنی کا رشتہ زوال آمادہ
خیال پیدا ہوا بھی نہ تھا کہ مر بھی گیا
صلہ یہ منزل مقصود کا ملا شادابؔ
سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گیا
غزل
ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا
عقیل شاداب