EN हिंदी
ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا | شیح شیری
hawas ka rang chaDha us pe aur utar bhi gaya

غزل

ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا

عقیل شاداب

;

ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا
وہ خود ہی جمع ہوا اور خود بکھر بھی گیا

تھی زندگی مری راہوں کے پیچ و خم کی اسیر
مگر میں رات کے ہم راہ اپنے گھر بھی گیا

میں دشمنوں میں بھی گھر کر نڈر رہا لیکن
خود اپنے جذبۂ حیوانیت سے ڈر بھی گیا

مرے لہو کی طلب نے مجھے تباہ کیا
ہوس میں سنگ کی ہاتھوں سے میرے سر بھی گیا

ہے لفظ و معنی کا رشتہ زوال آمادہ
خیال پیدا ہوا بھی نہ تھا کہ مر بھی گیا

صلہ یہ منزل مقصود کا ملا شادابؔ
سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گیا