اللہ والا ایک قبیلہ میری نسبت
اور میں اپنے نام نسب سے ناواقف ہوں
احمد شناس
باہر انسانوں سے نفرت ہے لیکن
گھر میں ڈھیروں بچے پیدا کرتے ہیں
احمد شناس
بغیر جسم بھی ہے جسم کا احساس زندہ
یہ خوشبو بانٹنے والی ہوائیں بھی قیامت
احمد شناس
بہت چھوٹا سفر تھا زندگی کا
میں اپنے گھر کے اندر تک نہ پہنچا
احمد شناس
بس اس کی پہچان یہی ہے
آنکھ میں آنسو بھرنے والا
احمد شناس
چاند میں درویش ہے جگنو میں جوگی
کون ہے وہ اور کس کو کھوجتا ہے
احمد شناس
ایک بچہ ذہن سے پیسہ کمانے کی مشین
دوسرا کمزور تھا سو یرغمالی ہو گیا
احمد شناس
غرق کرتا ہے نہ دیتا ہے کنارہ ہی مجھے
اس نے میری ذات میں کیسا سمندر رکھ دیا
احمد شناس
جانکاری کھیل لفظوں کا زباں کا شور ہے
جو بہت کم جانتا ہے وہ یہاں شہ زور ہے
احمد شناس