EN हिंदी
احمد شناس شیاری | شیح شیری

احمد شناس شیر

28 شیر

کون قطرے میں اٹھاتا ہے تلاطم
اور انتر آتما تک سینچتا ہے

احمد شناس




جسم بھوکا ہے تو ہے روح بھی پیاسی میری
کام ایسا ہے کہ دن رات کا کارندہ ہوں

احمد شناس




جانکاری کھیل لفظوں کا زباں کا شور ہے
جو بہت کم جانتا ہے وہ یہاں شہ زور ہے

احمد شناس




غرق کرتا ہے نہ دیتا ہے کنارہ ہی مجھے
اس نے میری ذات میں کیسا سمندر رکھ دیا

احمد شناس




ایک بچہ ذہن سے پیسہ کمانے کی مشین
دوسرا کمزور تھا سو یرغمالی ہو گیا

احمد شناس




چاند میں درویش ہے جگنو میں جوگی
کون ہے وہ اور کس کو کھوجتا ہے

احمد شناس




بس اس کی پہچان یہی ہے
آنکھ میں آنسو بھرنے والا

احمد شناس




بہت چھوٹا سفر تھا زندگی کا
میں اپنے گھر کے اندر تک نہ پہنچا

احمد شناس




بغیر جسم بھی ہے جسم کا احساس زندہ
یہ خوشبو بانٹنے والی ہوائیں بھی قیامت

احمد شناس