میں فتح ذات منظر تک نہ پہنچا
مرا تیشہ مرے سر تک نہ پہنچا
اسے معمار لکھا بستیوں نے
کہ جو پہلے ہی پتھر تک نہ پہنچا
تجارت دل کی دھڑکن گن رہی ہے
تعلق لطف منظر تک نہ پہنچا
شگفتہ گال تیکھے خط کا موسم
دوبارہ نخل پیکر تک نہ پہنچا
بہت چھوٹا سفر تھا زندگی کا
میں اپنے گھر کے اندر تک نہ پہنچا
یہ کیسا پیاس کا موسم ہے احمدؔ
سمندر دیدۂ تر تک نہ پہنچا
غزل
میں فتح ذات منظر تک نہ پہنچا
احمد شناس