اب قفس اور گلستاں میں کوئی فرق نہیں
ہم کو خوشبو کی طلب ہے یہ صبا جانتی ہے
عابد ودود
ہم فقیروں کا پیرہن ہے دھوپ
اور یہ رات اپنی چادر ہے
عابد ودود
ہم کسی سلطاں کے تابع نہیں عابدؔ ودود
ہم وہ کہتے ہیں جو اپنے دل پہ ہے گزری ہوئی
عابد ودود
اس اعتبار پہ کاٹی ہے ہم نے عمر عزیز
سحر کا وقت اجالے بھی ساتھ لائے گا
عابد ودود
کوئی منظر بھی نہیں اچھا لگا
اب کے آنکھوں میں ہے ویرانی بہت
عابد ودود
مگر یہ تیرگی جانے کا نام لیتی نہیں
میں نور بانٹتا سوز نہاں کی زد میں ہوں
عابد ودود
میں بارشوں میں بہت بھیگتا رہا عابدؔ
سلگتی دھوپ میں اک چھت بہت ضروری ہے
عابد ودود
سب اپنے اپنے طریقے سے بھیک مانگتے ہیں
کوئی بنام محبت کوئی بہ جامۂ عشق
عابد ودود
سر پر گرے مکان کا ملبہ ہی رکھ لیا
دنیا کے قیمتی سر و سامان سے گئے
عابد ودود